جانے کس جرم کی دنیا یہ سزا دیتی ہے
ہم چراغوں کو بڑی تیز ہوا دیتی ہے
اتنے سہمے ہیں تِرے ہجر کو سہتے سہتے
اب تو دروازے پہ دستک بھی ڈرا دیتی ہے
کیسی دنیا ہے کہ اپنوں کا سہارا بھی نہیں
ایسی دنیا ہے کہ مٹی میں سُلا دیتی ہے
اپنی مستی میں یہ ڈوبی ہوئی دنیا اور اُدھر
ایک آواز جو خالق کو صدا دیتی ہے
مے کدہ گیت سفر سب ہی بجا ہے لیکن
موڈ اچھا ہو تو چائے بھی مزا دیتی ہے
دوستوں یاروں میں ہنستے ہوئے چہرے کو اسد
بےبسی ریل کی پٹڑی پہ گرا دیتی ہے
اسد سلیم سالک
No comments:
Post a Comment