Thursday 23 February 2023

جانے کس جرم کی دنیا یہ سزا دیتی ہے

 جانے کس جرم کی دنیا یہ سزا دیتی ہے 

ہم چراغوں کو بڑی تیز ہوا دیتی ہے 

اتنے سہمے ہیں تِرے ہجر کو سہتے سہتے 

اب تو دروازے پہ دستک بھی ڈرا دیتی ہے

کیسی دنیا ہے کہ اپنوں کا سہارا بھی نہیں 

ایسی دنیا ہے کہ مٹی میں سُلا دیتی ہے 

اپنی مستی میں یہ ڈوبی ہوئی دنیا اور اُدھر 

ایک آواز جو خالق کو صدا دیتی ہے 

مے کدہ گیت سفر سب ہی بجا ہے لیکن 

موڈ اچھا ہو تو چائے بھی مزا دیتی ہے

دوستوں یاروں میں ہنستے ہوئے چہرے کو اسد 

بےبسی ریل کی پٹڑی پہ گرا دیتی ہے 


اسد سلیم سالک

No comments:

Post a Comment