اک حسنِ باریاب سے آگے نہیں بڑھے
یعنی ہم ایک خواب سے آگے نہیں بڑھے
اک شہرِ بے مراد میں کاٹی تمام عمر
اک خانۂ خراب سے آگے نہیں بڑھے
تجھ کو پلٹ کے دیکھنے کے دکھ سے بچنا تھا
ہم لوگ اس حساب سے آگے نہیں بڑھے
آگے تو بڑھ گئے ہیں تمہارے بغیر بھی
لیکن ہم آب و تاب سے آگے نہیں بڑھے
ہم نے اسے گلاب دیا آگے بڑھ کے راز
اور پھر ہم اس گلاب سے آگے نہیں بڑھے
اسماعیل راز
No comments:
Post a Comment