کسی کو حال سنانے میں مسئلہ ہو گا
غموں کو اشک بہانے میں مسئلہ ہو گا
تو دل کی بات کو خود دل کی دھڑکنوں سے سمجھ
مجھے وہ بات بتانے میں مسئلہ ہو گا
یہاں سے ہے میری بچپن کی یاد وابستہ
یہ شہر چھوڑ کے جانے میں مسئلہ ہو گا
کہیں اکیلے میں رونے کا اہتمام کروں
کہ بوجھ دل کا اٹھانے میں مسئلہ ہو گا
کئی سہیلیوں کے درمیان بیٹھی ہے
اب اس کو چھت پہ بلانے میں مسئلہ ہو گا
بری طرح سے محبت میں لُٹنے والے کو
کسی کا ساتھ نبھانے میں مسئلہ ہو گا
تِرے خیال کی دیوار کو گرا کے رئیس
نیا جہان بنانے میں مسئلہ ہو گا
رئیس جامی
No comments:
Post a Comment