بے چہرہ جسم کا نوحہ
اب تم مجھے کن آوازوں
میں ڈھونڈتے پھرتے ہو
کھڑکیاں بدلنے سے بھی
تم مجھے اپنی آنکھوں کی حقیقت نہیں بنا سکتے
آج میری روح میں اترو
اور اپنے نام کے تمام زخم چن لو
میں کئی مسکراہٹوں
اور چہروں میں قید ہوں
اجنبی ہاتھ دھوکہ بن کر
میرے ساتھ چلتے ہیں
گزری باتیں پہیلیوں کی شکل میں
میری رات کا راستہ روک لیتی ہیں
میں بمشکل ہی
صبح کے کنارے تک پہنچ پاتا ہوں
لان میں اگے پھول
میرے مردہ دل پر جی کھول کر ہنستے ہیں
میں اکتاہٹ کے ان لمحوں میں
کن جسموں کو امید بھری نظروں سے دیکھوں؟
چوک میں کھڑی عورتو
مجھے اپنی خامشی کا رازداں بنا لو
میرے پاس بھی سسکتے قدموں کو روکنے والے
چوکیدار کے کئی راز محفوظ ہیں
مگر یہ شہر
مجھے بھی خود پر
جی کھول کر ہنسنے نہیں دیتا
میں آوارہ گلیوں کا پیچھا کرتے کرتے تھک گیا ہوں
خاموشی کا سایہ طویل ہونے سے پہلے
میں اپنی جانب بڑھنے والے ہاتھ کو نظر انداز کروں گا
کیونکہ عورتیں ابدی تنہائی کے سوا کچھ نہیں دیتیں
اویس سجاد
No comments:
Post a Comment