Sunday, 26 February 2023

بے چہرہ جسم کا نوحہ

 بے چہرہ جسم کا نوحہ

اب تم مجھے کن آوازوں

میں ڈھونڈتے پھرتے ہو

کھڑکیاں بدلنے سے بھی

تم مجھے اپنی آنکھوں کی حقیقت نہیں بنا سکتے

آج میری روح میں اترو

اور اپنے نام کے تمام زخم چن لو

میں کئی مسکراہٹوں

اور چہروں میں قید ہوں

اجنبی ہاتھ دھوکہ بن کر

میرے ساتھ چلتے ہیں

گزری باتیں پہیلیوں کی شکل میں

میری رات کا راستہ روک لیتی ہیں

میں بمشکل ہی

صبح کے کنارے تک پہنچ پاتا ہوں

لان میں اگے پھول

میرے مردہ دل پر جی کھول کر ہنستے ہیں

میں اکتاہٹ کے ان لمحوں میں

کن جسموں کو امید بھری نظروں سے دیکھوں؟

چوک میں کھڑی عورتو

مجھے اپنی خامشی کا رازداں بنا لو

میرے پاس بھی سسکتے قدموں کو روکنے والے

چوکیدار کے کئی راز محفوظ ہیں

مگر یہ شہر

مجھے بھی خود پر

جی کھول کر ہنسنے نہیں دیتا

میں آوارہ گلیوں کا پیچھا کرتے کرتے تھک گیا ہوں

خاموشی کا سایہ طویل ہونے سے پہلے

میں اپنی جانب بڑھنے والے ہاتھ کو نظر انداز کروں گا

کیونکہ عورتیں ابدی تنہائی کے سوا کچھ نہیں دیتیں


اویس سجاد

No comments:

Post a Comment