خدائے امن و آشتی
نئی رُتوں میں میری بستیوں پہ بھیج روشنی کے پارچے
جو محوِ اضطراب ہے وہ اب سکوں کا سانس لے
یہ بھوک پیاس ختم کر، اتار سُکھ کے ذائقے
انڈیل خوشگواریاں، اجال رنگ ملگجے
جو سرخ چہرے غم کی لو سے بجھ گئے
اتار ان پہ تازگی، جمال، رنگ حوصلے
جو زنگ دھیرے دھیرے کھا رہا ہے اعتبار کو
وہ رنگ اب اجاڑ دے
خدائے امن و آشتی
نئی رُتوں کی گود میں امنگ ہو
وہ سبزگی اُگے مِری زمین میں
بہار جس کو دیکھ دیکھ دنگ ہو
جو دن طلوع ہو یہاں سنہری اس کا رنگ ہو
جو شب یہاں ہو خیمہ زن
نئی رُتوں کی خوشگوار اذان اس کے سنگ ہو
مہک اٹھے امید اعتبار سے
مِرے وطن کی ہر گلی
خدائے امن و آشتی
عبدالرحمان واصف
No comments:
Post a Comment