دنیا تیرے دلاسوں کے ڈر سے
غم ہنسی میں اڑا کے جیتے ہیں
پانی کم ہے بدن میں پہلے ہی
اس لیے مسکرا کے جیتے ہیں
روشنی کیسے ہو نہ آنگن میں
خواب سُوکھے جلا کے جیتے ہیں
کون کہتا ہے، ہم منافق ہیں
بس ذرا بچ بچا کے جیتے ہیں
روز وہ پوچھتے ہیں کیسے ہو
روز ان کو بتا کے جیتے ہیں
اپنی باتیں ہیں اپنا لہجہ ہے
اپنے ہاتھوں کا کھا کے جیتے ہیں
عابی مکھنوی
BOHT KHOOB
ReplyDeleteالسلام علیکم نوید کھوکھر جی! بلاگ پر آمد پر آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ غزل کی پسندیدگی کے لیے مشکور ہوں۔
Delete