کشاد ذہن و دل و گوش کی ضرورت ہے
یہ زندگی ہے یہاں ہوش کی ضرورت ہے
سنائی دے گی یقیناً ضمیر کی آواز
مخاطبین سبک گوش کی ضرورت ہے
اب احتیاج نہیں سرو قامتوں کی مجھے
مجھے تو اب کسی ہمدوش کی ضرورت ہے
خروش خم کا بھرم کھولنا ہے کیا مشکل
بس ایک رندِ بلا نوش کی ضرورت ہے
نگارِ صبح کے آنسو سمیٹنے کے لیے
گلوں کو وسعتِ آغوش کی ضرورت ہے
کہیں فقط متکلم سکوت کی حاجت
کہیں تکلمِ خاموش کی ضرورت ہے
جعفر بلوچ
No comments:
Post a Comment