ہر کوئی اجنبی سا لگتا ہے
جب کوئی زندگی سا لگتا ہے
میرے بن کیا تجھے بھی اے جاناں
لمحہ لمحہ صدی سا لگتا ہے
اس نہج پر ہے میری تنہائی
شور بھی خامشی سا لگتا ہے
حد سے بڑھ جائے یہ اندھیرا جب
آنکھ کو روشنی سا لگتا ہے
اب تو یہ بارشوں کا موسم بھی
بڑا بے موسمی سا لگتا ہے
مبتلا جو وفا میں ہیں ان کو
پہلا ہی آخری سا لگتا ہے
آج بھی جب ترا خیال آئے
سبھی کچھ پھر وہی سا لگتا ہے
عارضہ لے کے جائے گا یہ جاں
دل کہاں عارضی سا لگتا ہے
رفتہ رفتہ گری یوں دیواریں
گھر بھی اب تو گلی سا لگتا ہے
دل کا کردار ہی اضافی ہے
دل کو پر مرکزی سا لگتا ہے
کون دھوکہ نہ کھائے دنیا سے
ہر کوئی آدمی سا لگتا ہے
ہم کو تو اپنا عکس بھی اکثر
آئینے کی ہنسی سا لگتا ہے
گویا ابرک وجود مٹی کا
آپ اپنی نفی سا لگتا ہے
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment