Friday 24 February 2023

طلسم یار یہ پہلو نکال لیتا ہے

 طلسمِ یار یہ پہلو نکال لیتا ہے

کہ پتھروں سے بھی خوشبو نکال لیتا ہے

ہے بے لحاظ کچھ ایسا کہ آنکھ لگتے ہی

وہ سر کے نیچے سے بازو نکال لیتا ہے

کوئی گلی تیرے مفرورِ دو جہاں کی طرف

نہیں نکلتی مگر تُو نکال لیتا ہے

خدا بچائے وہ قذاق شہر میں آیا

ہو جیب خالی تو آنسو نکال لیتا ہے

اگر کبھی اسے جنگل میں شام ہو جائے

تو اپنی جیب سے جگنو نکال لیتا ہے


تہذیب حافی

No comments:

Post a Comment