کسی تلاش سے تھک کر ہی سکوں ہوتا ہے
ہمارے ساتھ ہر جنم میں یہ کیوں ہوتا ہے؟
ہم اس کے سر سے ہر اک شعر وارتے جائیں
بِکیں الفاظ تو جذبات کا خوں ہوتا ہے
میرے بارے ہی اگر پوچھنا ہو مجھ سے پوچھ
قصہ خوانوں میں کہاں سوزِ دروں ہوتا ہے
وصل کا خیال ہے تو سوچ بھی ویسی رکھو
ہو چھت بلند تو اونچا ہی ستوں ہوتا ہے
وہ ہیں توصیف سے عاری، ہمیں پرواہ نہیں
ان کے ہونٹوں پہ فقط لفظ ہی ’ہوں‘ ہوتا ہے
سپردگی کے بعد کے سوال بے ادبی
’’کیسے ہوتا ہے بتاؤ کہ یہ کیوں ہوتا ہے‘‘
ہٹا دنیا کے جھمیلوں سے تو طاہر پہ کُھلا
اذنِ معشوق سے ہی رقص جنوں ہوتا ہے
طاہر عبید تاج
No comments:
Post a Comment