تجھ کو جانا ہے کدھر اور کدھر جاتا ہے
تُو وہ راہی جو پسِ گردِ سفر جاتا ہے
اسپِ تازی کی طرح دھول اڑاتا ہوا دل
شب کو تاریک سمندر میں اتر جاتا ہے
وہ دہکتی ہوئی چھاتی، وہ دھمک سانسوں کی
ایک بوسے سے بدن آگ سے بھر جاتا ہے
ہم تو رُسوا سرِ بازار وفا ہو ہی گئے
اب ہمیں کیا جو کوئی لَوٹ کے گھر جاتا ہے
اوڑھے رہتا ہے سدا برف کی چادر، لیکن
تیری مُسکان سے دل دھوپ سے بھر جاتا ہے
شجاعت علی راہی
No comments:
Post a Comment