ساقی کی نگاہوں کا پیغام نہیں آتا
جس جام کا طالب ہوں وہ جام نہیں آتا
میخواروں کی لغزش پر دنیا کی نگاہیں ہیں
نافہمیٔ واعظ پر الزام نہیں آتا
اللہ رے مجبوری، اللہ رے محرومی
یا بارش صہبا تھی، یا جام نہیں آتا
بیتابیٔ دل راز تسکین محبت ہے
اچھے ہیں وہی جن کو آرام نہیں آتا
یا دل کے دھڑکتے ہی اٹھتی تھی نظر ان کی
یا دل کا تڑپنا بھی اب کام نہیں آتا
میکش کی بھی سنتا ہے زاہد کی بھی سنتا ہے
اس در سے کبھی کوئی ناکام نہیں آتا
میری ہی نظر شاعر رسوا ہے زمانے میں
حسن سر محفل پر الزام نہیں آتا
شاعر فتحپوری
No comments:
Post a Comment