ایک منظر میں کئی بار اسے دیکھ کے دیکھ
دیکھنا ہے تو لگاتار اسے دیکھ کے دیکھ
کوئی سورج سے ملا پاتا ہے کب تک آنکھیں
پھر بھی اک بار لگاتار اسے دیکھ کے دیکھ
یہ کھلی آنکھ کا منظر ہی نہیں ہے مِری جاں
بند آنکھوں سے بھی اک بار اسے دیکھ کے دیکھ
برف آنکھوں میں لیے دور کھڑے شخص کی خیر
کیسے جلنے لگے رخسار اسے دیکھ کے دیکھ
کوئی دالان سے جگنو نہ ادھر آ نکلے
خواب ہو جائیں نہ بیدار اسے دیکھ کے دیکھ
دیکھتے دیکھتے کیا کچھ نظر آنے لگ جائے
آئینہ خانے کے اس پار اسے دیکھ کے دیکھ
ہے یقیں چال ستاروں کی بدل جائے گی
ایک دن صبح کا اخبار اسے دیکھ کے دیکھ
لب ہیں جس نام کی تسبیح اسے سن کے تو سن
آنکھ جس کی ہے طلبگار اسے دیکھ کے دیکھ
گرد تنہائی کی اب چھوڑ اڑانا سیما
جھینپتے ہیں در و دیوار اسے دیکھ کے دیکھ
سیما نقوی
No comments:
Post a Comment