Saturday, 18 February 2023

ایک منظر میں کئی بار اسے دیکھ کے دیکھ

 ایک منظر میں کئی بار اسے دیکھ کے دیکھ 

دیکھنا ہے تو لگاتار اسے دیکھ کے دیکھ 

کوئی سورج سے ملا پاتا ہے کب تک آنکھیں 

پھر بھی اک بار لگاتار اسے دیکھ کے دیکھ 

یہ کھلی آنکھ کا منظر ہی نہیں ہے مِری جاں 

بند آنکھوں سے بھی اک بار اسے دیکھ کے دیکھ 

برف آنکھوں میں لیے دور کھڑے شخص کی خیر 

کیسے جلنے لگے رخسار اسے دیکھ کے دیکھ 

کوئی دالان سے جگنو نہ ادھر آ نکلے 

خواب ہو جائیں نہ بیدار اسے دیکھ کے دیکھ 

دیکھتے دیکھتے کیا کچھ نظر آنے لگ جائے 

آئینہ خانے کے اس پار اسے دیکھ کے دیکھ 

ہے یقیں چال ستاروں کی بدل جائے گی 

ایک دن صبح کا اخبار اسے دیکھ کے دیکھ 

لب ہیں جس نام کی تسبیح اسے سن کے تو سن 

آنکھ جس کی ہے طلبگار اسے دیکھ کے دیکھ 

گرد تنہائی کی اب چھوڑ اڑانا سیما

جھینپتے ہیں در و دیوار اسے دیکھ کے دیکھ 


سیما نقوی

No comments:

Post a Comment