Saturday, 18 February 2023

سب تری بزم سے سوغات اٹھا کر لائے

 سب تِری بزم سے سوغات اٹھا کر لائے

ہم اٹھے اور تجھے ساتھ اٹھا کر لائے

خیمۂ صبح میں بیٹھے تِری زلفوں کے اسیر

دن کی موجودگی میں رات اٹھا کر لے آئے

اب مجھے یاد نہیں تیری گلی کی جانب

خود چلا آیا کہ حالات اٹھا کر لے آئے

بند ان آنکھوں میں جب سے درِ میخانہ ہوا

لوگ ذہنوں میں خرابات اٹھا کر لے آئے

میں نے پوچھا تھا کہو، ارض و سما کیسے ہیں

کیا ہوا؟ آپ شکایات اٹھا کر لے آئے

نفع نقصان سے واقف ہی نہیں اہلِ جنوں

اور تم لوگ حسابات اٹھا کر لے آئے

پہلے افراد کو طبقات میں تقسیم کیا

اس پہ جمہوری مساوات اٹھا کر لے آئے

ختم کرنے جو آئے تھے رواجوں کا نظام

اپنے ہمراہ رسومات اٹھا کر لے آئے

کیسی بے حرمتی پیڑوں کی پرندوں کی ہوئی

تم جو شہروں میں مضافات اٹھا کر لے آئے

صرف آواز کی خوشبو ہی نہیں لائے تھے ہم

خامشی کو بھی لگے ہاتھ اٹھا کر لے آئے

تُو نے جو بھی کہا عشاق تِرے مان گئے

عقل والے تو سوالات اٹھا کر لے آئے

کوئی تو بات ہے ایسی کہ تِرے پہلو سے

خود کو بھی ہم بسا اوقات اٹھا کر لے آئے

گفتگو معجزۂ فن پہ تھی اور اہلِ ہنر

اپنی بے فیض کرامات اٹھا کر لے آئے

کل نئی نسل کی تہذیب نمائی میں سلیم

ہم بزرگوں کی روایات اٹھا کر لے آئے


سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment