Friday 17 February 2023

سر جھکا لیتا تھا پہلے جس کو اکثر دیکھ کر

 سر جھکا لیتا تھا پہلے جس کو اکثر دیکھ کر

آج پاگل ہو گیا اس کو برابر دیکھ کر

خواہشوں میں بہہ گیا کمزور مٹی کا حصار

جسم قطرے میں سمٹ آیا سمندر دیکھ کر

سوچتا ہوں رات کے اندھے سفر کے موڑ پر

چاند گھبرایا تو ہو گا خالی بستر دیکھ کر

آنکھ کھلتے ہی ہر اک لمحے میں میرا عکس تھا

میں بکھر جاتا ہوں اس کھڑکی کے باہر دیکھ کر

تُو ہی اترے گا خرابوں میں فراز عرش سے

ہم تو بے حس ہو چکے ہیں اب یہ منظر دیکھ کر

چاند تکنے کی تمنا لے کے واپس آ گیا

دوسروں کے گھر کو اپنی چھت سے اوپر دیکھ کر

اب تو مڑ کر بھی کسی آواز کو سنتا نہیں

جا بجا بکھرے ہوئے سڑکوں پہ پتھر دیکھ کر

مجھ کو سرمد اپنی بھی پہچان تک باقی نہیں

شخص اک اپنے ہی جیسا اپنے اندر دیکھ کر


سرمد صہبائی

No comments:

Post a Comment