Friday, 17 February 2023

میرے جوان سرحدوں پہ شباب وار گئے

 میرے جوان سرحدوں پہ شباب وار گئے

میرے بزرگ کھیت کی مٹی میں مل گئے

کسمپرسی چھپانے کے ہر جتن کے باوجود

چاند نکلا تو میرے سارے زخم کھل گئے

مٹی سے میری وفا کو نوکری نہ بولیے

چند نوالے میری حیات سے مہنگے نہیں ہیں

سکوں کے خواب میرے لہو کی طفیل ہیں

میں قرض چکا رہا ہوں میرے زخم بعید ہیں

میرے بعد مجھ پہ نازاں بھی ہوں گے آپ

ابھی جو جی رہا ہوں تو جیتے جی نہ مارئیے

میں ڈٹا ہوا ہوں محاظ پہ میری نظر اتارئیے

دھرتی کے دشمنوں سے نبرد آزما ہوں میں

فرقوں کی بھینٹ کیوں چڑھا رہے ہیں آپ

خطروں کے بوجھ اٹھائے کھڑا ہوں میں

مجھے دھرتی پہ بوجھ کیوں بتا رہے ہیں آپ

میں جان وار کر بھی اگر سرخرو نہ ہوا

میری روح افلاک پہ ماتم اٹھائے گی

میرے بعد پچھتاوا جو میری ماں کو ہوا

شہید کی وارث پھر جی نہ پائے گی

فرض کیجیۓ کہ ایک غازی ہوا ہوں میں

اپکی ہر سوچ کا غمازی ہوا ہوں میں

آپ کی سب اجرتوں کا بوجھ ہی سہی

جیسا آپ سوچتے ہیں میرے عالی جاہ

بجا کہہ رہے ہیں آپ کی بات ہی صحیح

عمر کے آخری پہر میں میرا نیا روپ ہے

جان کے عوض جان کا محافظ کھڑا ہوں میں

لوگو میری سوچ پہ وہم کھڑا ہے ایک

مجھے جو اپنی جان کے لالے پڑ گئے

میرے سارے جذبوں پہ جو تالے پڑ گئے

سوچ پہ عجیب کوئی فتور سوار ہو

میرے ذہن میں بھی ایک راہِ فرار ہو

دل ہی بھر جائے جو میرا اپنے کام سے

نفرت ہو جائے مجھ کو اجرت کے نام سے

گلی گلی نگر نگر خوف منڈھلائے پھر

اجرت پہ مرنے والا تم کو یاد آئے پھر

فارغ البال ہے دانشوروں کی فوج جو

ایسا قدم اٹھائے کہ بار آوری بھی ہو

ہر صاحبِ اختیار کے اعصاب چھل کرو

کوہ قاف کے مجاوروں پہ زمین تنگ کرو

آواز دو کہ خدارا کہیں تو دکھائی دو

بھوک افلاس ہے دھرتی کا ستیا ناس ہے

اے ہجوم کے مالکو کیا تمہیں احساس ہے

تنی ہوئی ہیں گردنیں کس بات کا غرور ہے

ڈرو کہ اس ہجوم کو اپنے حق کا شعور ہے

تمہاری سوچ کا دائرہ فقط اپنی ذات تک

جو گزر گیا وہ گزر گیا مگر جہل کی رات تک

امیر شہر حالات کا خلاصہ پھر سے کر

بپھرے ہوئے ہجوم کو پھر کوئی فریب دے

یا تو ان سب کی زبانیں کھینچ لے

یا پھر ان کے ہاتھ میں روٹی کا لقمہ دے

امیدیں، وعدے، جھوٹے خواب، دلاسے سب

فاقوں کے موسم میں کسی بھاؤ نہیں بکتے

ایسا کر کہ موت کا ڈراوہ دے کے دیکھ

مگر زندگی جب بوجھ ہو تو موت ہی بہتر

تیرے پاس بھی لیکن کوئی حل نہیں رہا

حربہ کل جو کارگر تھا آج کل نہیں رہا

بھوک ہے افلاس ہے حسرت و یاس ہے

پتھر پیٹ پہ باندھنا نبیﷺ کی میراث ہے

اپنے ہی زور بازو پہ لڑتا آیا ہے آدمی

مشکلیں اکیلا ہی سر کرتا آیا ہے آدمی

حیات اپنی سرشت میں سہل کبھی نہ تھی

آزمائشوں نے بخشا ہے آدمی کو دوام

آج سے اپنی ذات سے وفا کا عہد باندھ

پھر اسی زمین پہ دکھائی دے گا چاند

مشورے فقط زبان کا جمع خرچ ہی سہی

مگر مجھے تمہارے درد کا رنج بھی تو ہے


علی ساحر

No comments:

Post a Comment