میرے جوان سرحدوں پہ شباب وار گئے
میرے بزرگ کھیت کی مٹی میں مل گئے
کسمپرسی چھپانے کے ہر جتن کے باوجود
چاند نکلا تو میرے سارے زخم کھل گئے
مٹی سے میری وفا کو نوکری نہ بولیے
چند نوالے میری حیات سے مہنگے نہیں ہیں
سکوں کے خواب میرے لہو کی طفیل ہیں
میں قرض چکا رہا ہوں میرے زخم بعید ہیں
میرے بعد مجھ پہ نازاں بھی ہوں گے آپ
ابھی جو جی رہا ہوں تو جیتے جی نہ مارئیے
میں ڈٹا ہوا ہوں محاظ پہ میری نظر اتارئیے
دھرتی کے دشمنوں سے نبرد آزما ہوں میں
فرقوں کی بھینٹ کیوں چڑھا رہے ہیں آپ
خطروں کے بوجھ اٹھائے کھڑا ہوں میں
مجھے دھرتی پہ بوجھ کیوں بتا رہے ہیں آپ
میں جان وار کر بھی اگر سرخرو نہ ہوا
میری روح افلاک پہ ماتم اٹھائے گی
میرے بعد پچھتاوا جو میری ماں کو ہوا
شہید کی وارث پھر جی نہ پائے گی
فرض کیجیۓ کہ ایک غازی ہوا ہوں میں
اپکی ہر سوچ کا غمازی ہوا ہوں میں
آپ کی سب اجرتوں کا بوجھ ہی سہی
جیسا آپ سوچتے ہیں میرے عالی جاہ
بجا کہہ رہے ہیں آپ کی بات ہی صحیح
عمر کے آخری پہر میں میرا نیا روپ ہے
جان کے عوض جان کا محافظ کھڑا ہوں میں
لوگو میری سوچ پہ وہم کھڑا ہے ایک
مجھے جو اپنی جان کے لالے پڑ گئے
میرے سارے جذبوں پہ جو تالے پڑ گئے
سوچ پہ عجیب کوئی فتور سوار ہو
میرے ذہن میں بھی ایک راہِ فرار ہو
دل ہی بھر جائے جو میرا اپنے کام سے
نفرت ہو جائے مجھ کو اجرت کے نام سے
گلی گلی نگر نگر خوف منڈھلائے پھر
اجرت پہ مرنے والا تم کو یاد آئے پھر
فارغ البال ہے دانشوروں کی فوج جو
ایسا قدم اٹھائے کہ بار آوری بھی ہو
ہر صاحبِ اختیار کے اعصاب چھل کرو
کوہ قاف کے مجاوروں پہ زمین تنگ کرو
آواز دو کہ خدارا کہیں تو دکھائی دو
بھوک افلاس ہے دھرتی کا ستیا ناس ہے
اے ہجوم کے مالکو کیا تمہیں احساس ہے
تنی ہوئی ہیں گردنیں کس بات کا غرور ہے
ڈرو کہ اس ہجوم کو اپنے حق کا شعور ہے
تمہاری سوچ کا دائرہ فقط اپنی ذات تک
جو گزر گیا وہ گزر گیا مگر جہل کی رات تک
امیر شہر حالات کا خلاصہ پھر سے کر
بپھرے ہوئے ہجوم کو پھر کوئی فریب دے
یا تو ان سب کی زبانیں کھینچ لے
یا پھر ان کے ہاتھ میں روٹی کا لقمہ دے
امیدیں، وعدے، جھوٹے خواب، دلاسے سب
فاقوں کے موسم میں کسی بھاؤ نہیں بکتے
ایسا کر کہ موت کا ڈراوہ دے کے دیکھ
مگر زندگی جب بوجھ ہو تو موت ہی بہتر
تیرے پاس بھی لیکن کوئی حل نہیں رہا
حربہ کل جو کارگر تھا آج کل نہیں رہا
بھوک ہے افلاس ہے حسرت و یاس ہے
پتھر پیٹ پہ باندھنا نبیﷺ کی میراث ہے
اپنے ہی زور بازو پہ لڑتا آیا ہے آدمی
مشکلیں اکیلا ہی سر کرتا آیا ہے آدمی
حیات اپنی سرشت میں سہل کبھی نہ تھی
آزمائشوں نے بخشا ہے آدمی کو دوام
آج سے اپنی ذات سے وفا کا عہد باندھ
پھر اسی زمین پہ دکھائی دے گا چاند
مشورے فقط زبان کا جمع خرچ ہی سہی
مگر مجھے تمہارے درد کا رنج بھی تو ہے
علی ساحر
No comments:
Post a Comment