البیلی کامنی کہ نشیلی گھڑی ہے شام
سرمستیوں کی سیج پہ ننگی پڑی ہے شام
بے کل کیے ہے رَین کے رسیا کا انتظار
غمگیں ہے حسن شوخ کہ حیراں کھڑی ہے شام
چمکا دیا ہے اس کے شراروں نے فکر کو
احساس عشق و حسن کی اک پُھلجڑی ہے شام
تاباں ہے تیرا چہرہ کہ ہے جلوۂ سحر
رخشاں ہے تیری مانگ کہ تاروں جڑی ہے شام
روٹھے ہوئے دلوں کو بھی اس نے منا لیا
من موہنی ہے کامنی چنچل بڑی ہے شام
جانے کب آئے آج سا ہنگام دل نواز
یارو اٹھاؤ جام گھڑی دو گھڑی ہے شام
کرشن موہن
No comments:
Post a Comment