Thursday, 16 February 2023

تمہیں پکاروں جو چاند کہہ کر تو بس اشاروں سے جان لینا

 تمہیں پکاروں جو چاند کہہ کر تو بس اشاروں سے جان لینا 

صبا، سمندر، گلاب، جُگنو کے اِستعاروں سے جان لینا 

تپش، الاؤ، یہ تمتماہٹ، دہک، تمازت یہ دھوپ کیا ہے

 تمہارے گالوں کو چھُو کے گُزریں تو ان ستاروں سے جان لینا

نقوش تِیکھے،۔ نِگاہ ترچھی،۔ کٹار ابرو،۔ قتیل نیناں

کہاں کہاں پہ یہ جان دی ہے یہ بے قراروں سے جان لینا 

شریر چنچل، اے شوخ دریا، سبھاؤ آئےجو پیچ و خم میں

کٹاؤ کتنا شدید آیا یہ تم کناروں سے جان لینا

تجھے چُھڑانے کو شاہزادی کہاں کہاں نہ چراغ رگڑے   

وہ دیو اب تک ہیں قید ان میں، طلسمی غاروں سے جان لینا 


عاطف جاوید عاطف

No comments:

Post a Comment