Thursday 16 February 2023

وہ پوچھتی ہے کہ نظم کیا ہے

 وہ پوچھتی ہے کہ نظم کیا ہے 

میں اس سے کہتا ہوں 

خوبصورت گلابی لفظوں سے 

ایسا دلکش حسین منظر تراش دینا کہ پڑھنے والا 

خود اپنی آنکھوں میں سارا منظر گزرتا دیکھے 

مگر فقط نظم یہ نہیں ہے 

وہ اپنے نازک نفیس چہرے سے کھیلتی 

اک حسین لٹ کو بڑی ادا سے ہٹا کے کہتی ہے اور کیا ہے 

میں اس کی جھک کر سخن اٹھاتی 

حسین آنکھوں کی وسعتوں میں 

اترتا اس کے حنائی ہاتھوں کو 

ہاتھوں میں لے کے کہتا ہوں

نظم یہ ہے 

وہ فاتحانہ سا مسکراتی 

نفیس ہاتھوں کی انگلیوں پر 

مہکتے ناخن کی نیل پالش کو دیکھتی ہوئی 

گداز لہجے میں پوچھتی ہے 

تو نظم یہ ہے

میں اس کے کانوں کے گوشواروں کو چھیڑتا ہوں

وہ میری انگلی کی اس شرارت پہ جھینپتی ہوئی

خفیف لہجے میں پوچھتی ہے 

بتائیں بھی ناں کہ نظم کیا ہے

میں اس کی ٹھوڑی پہ جھلملاتے سیاہ تِل کو

نظر نظر میں ہزار سمتوں سے چومتا ہوں 

میں اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوں

ذرا سا اس کو قریب کر کے 

میں مسکراتے سے دھیمے لہجے میں بولتا ہوں 

گلاب زادی 

او شاہزادی

یہ کن خیالوں میں جان گُم ہو

میں ایسا پاگل سا ایک شاعر

کہ جس کی اِک ایک نظم تم ہو 

وہ ایک بھر پور قہقہہ سا اچھالتی ہے 

تو شام کے ملگجی اندھیرے میں جیسے خوشبو سی پھیلتی ہے

وہ شوخ سا اک حسین لمحہ مِرے لبوں پر اتارتی ہے

وہ میرے بالوں کو مہکی مہکی سی انگلیوں سے سنوارتی ہے

اور شانے پہ سر ٹِکا کر 

خُمار آلود بھیگے لہجے میں دھیمے دھیمے پُکارتی ہے

تو نظم یہ ہے

تو نظم یہ ہے


میثم علی آغا

No comments:

Post a Comment