وہ پوچھتی ہے کہ نظم کیا ہے
میں اس سے کہتا ہوں
خوبصورت گلابی لفظوں سے
ایسا دلکش حسین منظر تراش دینا کہ پڑھنے والا
خود اپنی آنکھوں میں سارا منظر گزرتا دیکھے
مگر فقط نظم یہ نہیں ہے
وہ اپنے نازک نفیس چہرے سے کھیلتی
اک حسین لٹ کو بڑی ادا سے ہٹا کے کہتی ہے اور کیا ہے
میں اس کی جھک کر سخن اٹھاتی
حسین آنکھوں کی وسعتوں میں
اترتا اس کے حنائی ہاتھوں کو
ہاتھوں میں لے کے کہتا ہوں
نظم یہ ہے
وہ فاتحانہ سا مسکراتی
نفیس ہاتھوں کی انگلیوں پر
مہکتے ناخن کی نیل پالش کو دیکھتی ہوئی
گداز لہجے میں پوچھتی ہے
تو نظم یہ ہے
میں اس کے کانوں کے گوشواروں کو چھیڑتا ہوں
وہ میری انگلی کی اس شرارت پہ جھینپتی ہوئی
خفیف لہجے میں پوچھتی ہے
بتائیں بھی ناں کہ نظم کیا ہے
میں اس کی ٹھوڑی پہ جھلملاتے سیاہ تِل کو
نظر نظر میں ہزار سمتوں سے چومتا ہوں
میں اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوں
ذرا سا اس کو قریب کر کے
میں مسکراتے سے دھیمے لہجے میں بولتا ہوں
گلاب زادی
او شاہزادی
یہ کن خیالوں میں جان گُم ہو
میں ایسا پاگل سا ایک شاعر
کہ جس کی اِک ایک نظم تم ہو
وہ ایک بھر پور قہقہہ سا اچھالتی ہے
تو شام کے ملگجی اندھیرے میں جیسے خوشبو سی پھیلتی ہے
وہ شوخ سا اک حسین لمحہ مِرے لبوں پر اتارتی ہے
وہ میرے بالوں کو مہکی مہکی سی انگلیوں سے سنوارتی ہے
اور شانے پہ سر ٹِکا کر
خُمار آلود بھیگے لہجے میں دھیمے دھیمے پُکارتی ہے
تو نظم یہ ہے
تو نظم یہ ہے
میثم علی آغا
No comments:
Post a Comment