جنگ میں دونوں اتنے قریب آ گئے سانس کی ڈور سانسوں سے کٹنے لگی
ایک پردہ نشیں آنکھ کی تیغ سے میرے لشکر کے لشکر الٹنے لگی
آنکھ اٹھی کہ جیسے قیامت اٹھی، جھک گئی تو سحاب آ جھکے دشت پر
رن میں تیز خنجر کھنکھنے لگے، زرد پیڑوں پہ بجلی جھپٹنے لگی
وہ چلی تو چلا کاروبار ختن،۔ سانس لینے لگے لالہ و یاسمن
اس ہرن نے چمن میں بھری چوکڑی اور پھولوں میں خیرات بٹنے لگی
تار مطرب پہ میری غزل جب چلی، پہن کر ماروا اوڑھ کر گُن کلی
بہہ کے جذبات کی رو میں اک سانولی خود مِرے بازوؤں میں سمٹنے لگی
یونہی بس، تیرے شاعر نے مصرع کہا، کارِہائے آفرینش میں جنبش ہوئی
لڑکیاں زیر لب مسکرانے لگیں، دن نکلنے لگا، دھند چھٹنے لگی
سرمئی، گہری، برفاب انجیل سے، خوف سرکا مِرے من کی تحویل سے
رات یک دم برآمد ہوئی جھیل سے اور میرے بدن سے لپٹنے لگی
میں نے اس کو چھوا، وہ ابھی تھی یہاں، اس کی خوشبو ہے مجھ میں رواں، بیکراں
ایک صورت ہوئی رفتہ رفتہ دھواں، سانس رکنے لگا، نبض پھٹنے لگی
ہاتھ اٹھتے نہیں اب مناجات کو، تیرے عشاق مایوس ہونے لگے
برگدوں کی کرامت کو گُھن کھا گیا، آستانوں سے دستک پلٹنے لگی
کل اچانک سنی ایک تحدیدِ تر، اے امیر سخن! ہوش کر، ہوش کر
سر اٹھا کر جو دیکھا تو میری جبیں آئینے کی سیاہی سے اٹنے لگی
امیر سخن
No comments:
Post a Comment