Friday, 17 February 2023

ستم کے مارے لہو میں ڈوبے ہوئے نظاروں کا کیا کروں گا

 ستم کے مارے لہو میں ڈوبے ہوئے نظاروں کا کیا کروں گا 

سسکتے غنچو! تمہیں بتاؤ میں ان بہاروں کا کیا کروں گا 

جنہیں بھروسہ ہو آسماں پر وہ آسماں سے پناہ مانگیں 

میں اپنے ذروں سے مطمئن ہوں میں چاند تاروں کا کیا کروں گا 

اگر مجھے دے سکے زمانہ تو کچھ نئے زخم اور دے دے 

میں غمگساروں کو جانتا ہوں میں غمگساروں کا کیا کروں گا 

ہیں شام غربت کی تیرگی میں مجھے مِرے اشک ہی غنیمت 

ہو جن کی قسمت میں خود ہی گردش میں ان ستاروں کا کیا کروں گا 

میں خود ہی طوفاں ہوں اپنا ساحل نکال لوں گا یہیں کہیں سے 

جہاں سفینے بھی ڈوب جائیں میں ان کناروں کا کیا کروں گا 

تمہارے دیر و حرم کے جلوے تمہیں مبارک تمہیں سنبھالو 

مجھے حقیقت کی جستجو ہے میں خواب زاروں کا کیا کروں گا 

ابھی تو دامان غنچہ و گل سے لوں گا میں انتقام ارشد 

ابھی جنوں معتبر نہیں ہے ابھی بہاروں کا کیا کروں گا


ارشد صدیقی

No comments:

Post a Comment