اپنی وجہ بربادی جانتے ہیں ہم لیکن کیا کریں بیاں لوگو
مصلحت پرستی پر ہر قدم رہا ہم کو جرم کا گماں لوگو
خیر ہم تو کانٹے تھے اور ہمیں کچلنا بھی وقت کا تقاضا تھا
پھول جن کو سمجھے تھے اب سنا ہے ان سے بھی ہیں وہ سرگراں لوگو
جس کے عشق کی ہم پر تہمتیں لگاتے ہو اس حسین پیکر پر
ہم نے دل ہی کھویا ہے تم جو دیکھتے شاید وار دیتے جاں لوگو
کیا سبب بتائیں ہم نالۂ شبانہ کا پوچھ لو ان آنکھوں سے
اس نگاہ جادو میں اپنے ہر تبسم کی ہیں کہانیاں لوگو
وقت کی نزاکت کا آج جو تقاضا ہے جرم کل نہ کہلائے
توڑ دو خموشی کے آہنی حصاروں کو کھول دو زباں لوگو
شعر کیا غزل کیسی اے حسن یہ فن ہے جس کو کچھ ہی سمجھیں گے
ڈھونڈھ پاؤ تو ڈھونڈھو ان چھپے اشاروں میں اپنی داستاں لوگو
حسن کمال
No comments:
Post a Comment