مختلف رنگوں سے دنیا ہم کو سمجھاتی رہی
اپنی فطرت پھر بھی دیہاتی کی دیہاتی رہی
خالقا! وے خالقا! ہم تو تِرے شہکار تھے
لے تِری دنیا تِرے شہکار ٹُھکراتی رہی
کون مومن، کون ملحد بارگاہِ عشق میں
مجلسیں پڑھتی تھی وہ اور میرے گُن گاتی رہی
عشق میں مرنے کی باتیں کرنے والی کل ملی
اتنی ہی خاموش تھی وہ جتنی جذباتی رہی
ہر حوالے سے کسی کے ہم حوالے ہو گئے
پر خوشی پہلی محبت کی حوالاتی رہی
چھوڑیے یہ سوچنا بھی کیوں کہ اس نے کیا کیا
وہ مجھے بھانے لگی تھی، بھا گئی، بھاتی رہی
بات پلے باندھ! بے حد رحم دلی عیب ہے
جو بھی میٹھا ہو گیا دنیا اسے کھاتی رہی
افکار علوی
No comments:
Post a Comment