غبارِ احساسِ پیش و پس کی اگر یہ باریک تہہ ہٹائیں
تو ایک پل میں نہ جانے کتنے زمانوں کے عکس تھر تھرائیں
خزاں اگر اپنا خوں نہ بخشے تو فصلِ گل کیسے سرخرو ہو
سکوت اپنا جگر نہ چیرے تو کیسے جھنکار دیں صدائیں
بکھر چلے ہیں بکھر چکے ہیں گلِ عبارت کے برگ ریزے
کتابِ جاں کی شہادتوں کا ورق ورق لے گئیں ہوائیں
ہوا کی بے رنگ تختیوں پر صدا کی تحریر کیا ابھاریں
سکوت کے بے نشاں کھنڈر میں چراغِ آواز کیا جلائیں
یہ شوق کی بے نصیب کلیاں یہ درد کے بے خزاں شگوفے
تمہارے قدموں میں رکھ نہ پائے تو کس کی چوکھٹ پہ جا گرائیں
ہوا کی تلوار چل رہی ہو تو شاخِ امید کیا سنبھالیں
بدن کی دیوار گر رہی ہو تو دل کی دیوار کیا بچائیں
تماش گاہِ طرب نشاں میں سبھی کو لازم ہے مسکرانا
جو غم فروشی نہ کرنا چاہیں وہی یہاں بخت آزمائیں
مہیب راتوں میں ڈگمگاتے دکھی بدن کے مسافروں کو
اکیلے پن میں ڈرا رہی ہے سمے کے جنگل کی سائیں سائیں
تمام الفاظ مر چکے ہیں تمام احباب جا چکے ہیں
گئی رُتوں کے ستم کا قصہ سنائیں کیسے کسے سنائیں
اسلم انصاری
No comments:
Post a Comment