Friday 17 February 2023

چاہت تمہاری سینے پہ کیا گل کتر گئی

 چاہت تمہاری سینے پہ کیا گل کتر گئی

کس خوش سلیقگی سے جگر چاک کر گئی

رکھی تھی جو سنبھال کے تُو نے سلامتی

وہ تیرے بعد کس کو پتا، کس کے گھر گئی

جو زندگی سمیٹ کے رکھی تھی آج تک

اک لمحۂ خفیف میں یکسر بکھر گئی

بھٹکے ہوئے تھے ایسے کہ گرد سفر کو ہم

مڑ مڑ کے دیکھتے رہے، منزل گزر گئی

اک عمر دھوپ میں جو پلی تھی، وہ کشمکش

سایہ گھنے درخت کا دیکھا تو ڈر گئی

حیرت ہے کچھ پتا نہ چلا کیسے زندگی

جیسی گزرنی تھی مِری، ویسی گزر گئی

اوچھوں کی طبع آزرِ خوش خُو سے پوچھیے

جوں ہی ہوائے وقت لگی، بس اپھر گئی


راشد آزر

No comments:

Post a Comment