یکسر اس پُر امن فضا میں جانے کیسا شور کُھلا
چیخ اُٹھا خاموش گڈریا، جنگل جاگا، شور کھلا
دُور سے دیکھ کے لگتا تھا خاموش رہے گا ایسے ہی
جب دریا میں اُتر گئے تو، ہم پر اس کا شور کھلا
شوخ طبیعت تھی اپنی اور باتیں ختم نہ ہوتی تھیں
چُپ کے معنی کُھل گئے ہم پر اک دن ایسا شور کھلا
خاموشی تو سمجھ گئے تھے خود سے پہلے والوں کی
لیکن بعد میں آنے والوں پر نہ ہمارا شور کھلا
آخر ہم نے خود کو بھرنے کی بندش پر غور کیا
خالی پن میں کھول چکے تھے ہم سے جتنا شور کھلا
مقداد احسن
No comments:
Post a Comment