بادِ صرصر کی کرامات سے پہلے کیا تھا
یہ نہ پوچھو کہ یہاں رات سے پہلے کیا تھا
اب تو وہ نسل بھی معدوم ہوئی جاتی ہے
جو بتاتی تھی، فسادات سے پہلے کیا تھا
اے سمندر! تِری آنکھیں ہیں یہاں سب سے قدیم
اس جزیرے پہ مکانات سے پہلے کیا تھا
اے زمیں! کتنی پرانی ہے یہ نیلی چادر؟
تیرے شانوں پہ سماوات سے پہلے کیا تھا
عشق اعلان سے پہلے تھا شناور کیا چیز
حسن اظہارِ خیالات سے پہلے کیا تھا
شناور اسحاق
No comments:
Post a Comment