Thursday, 16 February 2023

دل ہے تو مگر دل میں وہ جذبات نہیں اب

دل ہے تو مگر دل میں وہ جذبات نہیں اب

اک ساز ہے جو حاملِ نغمات نہیں اب

وہ سلسلۂ حرف و حکایات نہیں اب

ملتے ہیں مگر لطف ملاقات نہیں اب

در پردہ اشارات و کنایات نہیں اب

یعنی نظر افروز حجابات نہیں اب

ملنے کو تو ملتی ہیں نگاہوں سے نگاہیں

وہ لطف سوالات و جوابات نہیں اب

اب شام و سحر میں نہیں بیتابئ فطرت

آشوب تمنا لیے دن رات نہیں اب

صہبائے طرب کون پئے کون پلائے

وہ رِند، وہ ساقی، وہ خرابات نہیں اب

سب اٹھ گئے خوشرنگ حجابات نظر سے

دنیا مِری نظروں میں طلسمات نہیں اب


حبیب احمد صدیقی

No comments:

Post a Comment