Thursday 25 January 2024

جسم کیا روح پر بھی خراشیں پڑیں

 رُوپ بہرُوپ


جسم کیا رُوح پر بھی خراشیں پڑیں 

بُھولتی ہی نہیں کاٹ اُس طنز کی 

کس قدر مُختصر دائرہ فکر کا

ابتداء آپ سے، انتہا بھی وہیں 

ذات کی داستاں ختم ہوتی نہیں

دل سے نکلے کدُورت کبھی

تو محبت بھی عُنوان ہو

پر یہاں میں فقط "میں" کی گردان ہے

اصل چہرے پہ کچھ اور چہرے سجے 

کُھل چُکا بھیس ہر شخص کا

ہاں حقیقت نہیں ہیں یہ بہرُویے

رُوپ بہرُوپ کا

کھیل کتنا چلے

دیکھ لیں مات کس کی ہے اور

جیت کس کو ملے؟


رابعہ سرفراز

No comments:

Post a Comment