جھوٹ کی اب تجارت یہاں عام ہے
ہم پہ سچ بولنے کا ہی الزام ہے
شاعری بس تخیل کا ہی کام ہے
کون کہتا ہے یہ ایک الہام ہے
بِن پیے اک نشہ سا ہُوا ہے مجھے
یہ تِری آنکھیں ہیں یا کوئی جام ہے
آپ کی زندگی اک نئی صبح ہے
اور مِری زندگی ڈوبتی شام ہے
میں تو پروانہ ہوں عشق مذہب مِرا
شمع کے سنگ جلنا مِرا کام ہے
آپ کے نام کا وِرد ہر پل کروں
آپ کو یاد کرنا مِرا کام ہے
آدمی میں بھی اشہر ہوں اچھا مگر
بس زرا سا مِرا نام بدنام ہے
اشہر اشرف
No comments:
Post a Comment