صحرا کی کڑی دھوپ ہے تمثیلِ محبت
کیا اور کروں دوستو! تفصیلِ محبت
رہتی ہے بدن میں جو مِرے خوں کی طرح سے
میں کیسے کروں ختم یہ تحلیلِ محبت
ہر شخص سے نفرت کی مجھے بھیج ملی ہے
بیٹھا میں جہاں کھول کے زنبیل محبت
چھوڑی ہے سبھی نے ہی ادھوری سی کہانی
انساں کے کہاں بس میں ہے تکمیلِ محبت
اک بار کسی سے ہو محبت تو کبھی بھی
ہو سکتی نہیں پھر کبھی تقلیلِ محبت
دیکھا ہی نہیں عشق کے مکتب میں کبھی بھی
آصف ہو کسی روز بھی تعطیلِ محبت
آصف علی علوی
No comments:
Post a Comment