اب مِری نگاہوں میں اوج ہے نہ پستی ہے
ایک سیل مدہوشی،۔ اک ہجوم مستی ہے
اے نگاہِ نامحرم عشق کی وہ بستی ہے
جس قدر اُجڑتی ہے اس قدر ہی بستی ہے
عاشقی و محبوبی آئینے کے دو رُخ ہیں
حُسن ایک بادہ ہے، عشق ایک مستی ہے
جذبۂ عبادت کو رکھ جزا سے بے گانہ
ورنہ حق پرستی بھی اک ہوس پرستی ہے
دل کی پائمالی کا غم تو کچھ نہیں، لیکن
ایسی پر فضا بستی مُشکلوں سے بستی ہے
دیدہ ور کوئی دیکھے شانِ پیرِ مے خانہ
اس خُودی کے چہرے سے بیخودی برستی ہے
ہمتوں کے بل اُٹھو خُود روی کے بل نکلو
لغزشوں کے بل چلنا ننگِ مے پرستی ہے
آدمی کے چہرے پر بندگی نہیں رہتی
ورنہ خُود پرستی بھی اک خُدا پرستی ہے
بلدیو راج
No comments:
Post a Comment