سُنی سنائی سی تھیں بے وفائیاں کیا کیا
بنائیں لوگوں نے لیکن کہانیاں کیا کیا
اسے تو کارِ جہاں سے نہیں مِلی فُرصت
ہوئی ہیں دل کو مگر بدگُمانیاں کیا کیا
اُداسی، درد و غم و رنج، ہجر تنہائی
ملی ہیں پیار کی ہم کو نشانیاں کیا کیا
بکھیرے گیسُو کبھی، کھنچ لے کبھی آنچل
کرے ہے بادِ صبا چھیڑ خانیاں کیا کیا
یہ آئینہ نہیں،۔ احباب ہی بتائیں گے
ہیں اپنے قول و عمل میں خرابیاں کیا کیا
مجھے کتابوں میں یا پھر دلوں میں زندہ رکھ
غُبارِ راہ ہوئیں ورنہ ہستیاں کیا کیا
ذرا سا رنگِ سخن کیا ظہیر کا بدلا
چلائی لوگوں نے لفظوں کی برچھیاں کیا کیا
ظہیر قدسی
ظہیرالدین محمد عمر قدسی
No comments:
Post a Comment