عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مجرئی جس کا جنازہ غیر نے دیکھا نہ تھا
اُس کی بہووں بیٹیوں کے واسطے پردا نہ تھا
پیاس بھی اور بُھوک بھی پیاروں کا غم افراطِ زخم
حضرتِ شبیرؑ پر رن میں قلق کیا کیا نہ تھا
تین دن سے بند تھا پانی شہؑ مظلوم پر
واہ رے صابر کہ مُطلق پیاس کا شکوا نہ تھا
احمدﷺ و زہراؑ و حیدرؑ ساتھ تھے شبیرؑ کے
ظاہراً تنہا تھا، پر باطن میں وہ تنہا نہ تھا
ننگے سر بازاریوں نے اس کو دیکھا ہے غضب
جس کی ماں کا منہ کبھی خُورشید نے دیکھا نہ تھا
شہؑ نے اکبرؑ سے کیا جب حُسنِ یوسفؑ کا بیاں
کان میں آئی ندائے غیب؛ وہ ایسا نہ تھا
کیا ہی مستغنی تھے پیاسے جاں نثاراں حسینؑ
ایک کے لاشے کا منہ بھی جانبِ دریا نہ تھا
چُور ٹاپوں سے ہُوا قاسمؑ مگر اللہ رے عشق
شاہؑ کو جب تک نہ دیکھا تھا تو دم نکلا نہ تھا
ق
ہے یہ اہل غازریہ نے روایت میں لکھا
جب تلک مدفوں ہوا واں جسم حضرتؑ کا نہ تھا
کون سا دن تھا کہ روتے تھے نہ احمدؐ آن کر
کون سی شب تھی کہ بَن میں نالۂ زہراؑ نہ تھا
کیا کہوں عریانئ اجسامِ مقتولانِ ظلم
نام کو کپڑا سوائے دامنِ صحرا نہ تھا
مرتبہ جعفرؑ سے بھی عباسؑ کا افزوں ہوا
وہ علم بردار اہلِ بیت کا سقا نہ تھا
بعد اکبرؑ جب تلک سبطِ نبیﷺ جیتے رہے
نور آنکھوں میں شہؑ مظلوم کے اصلا نہ تھا
احمدؐ و زہراؑ کھڑے تھے پاس شہؑ کے وقتِ ذبح
شمر کو پر کچھ بھی پاسِ احمدؐ و زہراؑ نہ تھا
دیکھ کر گلزارِ مقتل کو کہا سجادؑ نے
اے فلک اس باغ میں کچھ بھی مرا حصہ نہ تھا
شمر و حرؓ تھے ایک ہی لشکر کے پر اتنا تھا فرق
وہ سگِ دنیا تھا اور یہ طالبِ دنیا نہ تھا
کربلا سے جا کے پھر آتے ہیں اے دلگیر جو
اُن سے پوچھا چاہیے یاں کیا ہے اور واں کیا نہ تھا
دلگیر لکھنوی
لالہ چھنو لال دلگیر
No comments:
Post a Comment