چاہتا ہوں کہ مِرا دردِ جگر اور بڑھے
تیرگیٔ شب غم تا بہ سحر اور بڑھے
دُور ہے مجھ سے ابھی دامنِ صد رنگ ان کا
کارواں اشکوں کا اے دیدۂ تر اور بڑھے
یوں تو تنہا ہی چلا جاؤں گا میں منزل تک
تم اگر ساتھ چلو، عزمِ سفر اور بڑھے
کتنی رنگین ہے، جس راہ پہ اُٹھا ہے قدم
چاہتا ہوں کہ تِری راہ گُزر اور بڑھے
ابھی بھڑکی ہے کہ آتی ہے مہک شعلوں کی
عشق کی آگ اگر اور اگر اور بڑھے
ابھی اس سینے میں زخموں کی جگہ باقی ہے
آپ کی شوخ ادا، شوخ نظر اور بڑھے
ہوش رامپوری
No comments:
Post a Comment