Tuesday, 23 January 2024

اسیر عشق ہوں برجستہ بات کرتا ہوں

 اسیر عشق ہوں برجستہ بات کرتا ہوں

اسے گُماں ہے کہ دانستہ بات کرتا ہوں

مُنافقت سے زباں تلخ ہونے لگتی ہے

وگرنہ میں بڑی شائستہ بات کرتا ہوں

کسی کے زعم و انا درگزر میں نہ رہیں

تو پھر گُزشتہ سے پیوستہ بات کرتا ہوں

خیال کرتا ہوں آشُفتہ حال لوگوں کا

؟؟؟؟؟؟ سے آہستہ بات کرتا ہوں


شکیل جعفری

یوٹیوب پہ ملی اس غزل کی آڈیو کوالٹی اچھی نہ تھی، جس کی وجہ سے کچھ الفاظ درست نہ سمجھ سکا، جس کے لیے معذرت خواہ ہو۔

No comments:

Post a Comment