Tuesday 23 January 2024

دل پہ مجرائی کے اس غم سے نہ کیوں چھائے گھٹا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دل پہ مجرائی کے اس غم سے نہ کیوں چھائے گھٹا

شاہؑ پیاسے رہیں اک بُوند نہ برسائے گھٹا

جن کے ناناﷺ کے سدا سر پہ رہے سایہ فگن

اُس کا تن دُھوپ میں ہو اورنہ گِھر آئے گھٹا

سارے اطفال نباتات کو سیراب کرے

علی اصغرؑ کو پر اک بُوند نہ پہنچائے گھٹا

شہؑ کا خیمہ بھی جلے بیبیاں باہر نکلیں

تو بھی مِینہ اُس کے بجھانے کو نہ برسائے گھٹا

رو دیا بانوؑ نے جب مِینہ کو برستے دیکھا

یاد کر تشنہ دہانوں کو کہا ہائے گھٹا

تیر سی لگتی ہیں اب دھاریں یہ مِینہ کی تیرے

ڈھونڈنے پیاسوں کو اب بانوؑ کدھر جائے گھٹا

دیکھوں جب تجھ کو برستے تو نہ کیوں کر اے وائے

خشک اکبرؑ کا دہن نظروں میں پھر جائے گھٹا

یا اُس پاس چلوں یا وہی آوے میرے پاس

اُس کی تدبیر کوئی اب مجھے بتلائے گھٹا

تُو ہی انصاف سے اب دیکھ تو اکبرؑ کے بغیر

سُونے اس گھر میں بھلا کیوںکر رہا جائے گھٹا

کہتی تھیں بیبیاں سب پیاس سے گھبرا گھبرا

برسے مِینہ خوب سا اے کاش کہیں آ جائے گھٹا

کہا زینبؑ نے کہ ہم پیاسوں کی وہ قسمت ہے

دیکھے گر ہم کو تو آئی ہوئی پھر جائے گھٹا

شہؑ کو عرصہ جو کھنچا کہتی تھی صغراؑ بیمار

اُٹھنے اور بیٹھنے کا زور بھی اب ہائے گھٹا

کس طرح نہ چُھپے ماہِ بتولؑ اے دلگیر

چار جانب سے جو یوں شام کی گِھر آئے گھٹا


دلگیر لکھنوی

لالہ چھنو لال دلگیر

No comments:

Post a Comment