Monday 29 January 2024

رگ جاں میں اتر کر بولتا ہے

 رگِ جاں میں اُتر کر بولتا ہے

حقیقت میں سخن ور بولتا ہے

کسی سے کب وہ ڈر کر بولتا ہے

زبان حق قلندر بولتا ہے

عطا ہوتی ہے جس کو چشم بینا

تو قطرے میں سمندر بولتا ہے

نہیں ہیرا چمکتا بے تراشے

ترش جائے تو پتھر بولتا ہے

وہ جُھوٹا ہے جو بے تحقیق باتیں

کسی سے سُن کے اکثر بولتا ہے

وہی ہے معتبر آنسُو جو اختر

سرِ مِژگاں ٹھہر کر بولتا ہے


اختر صدیقی

No comments:

Post a Comment