جو زندگی کی کشاکش سے تنگ آئے ہیں
وہ آدمی تو نہیں، آدمی کے سائے ہیں
زمانہ لاکھ مٹائے،۔ مٹا نہیں سکتا
ہم ایسے نقش بھی راہوں میں چھوڑ آئے ہیں
یہ سادہ لوحی ہماری کہ آزما کر بھی
وفا کے نام پہ اکثر فریب کھائے ہیں
نہ مِل سکا جنہیں دامن خلوص کا اب تک
کچھ ایسے اشک بھی پلکوں پہ تھرتھرائے ہیں
یہ انتشار،۔ یہ بد نظمئ چمن انجم
بہار پر بھی مُسلّط خزاں کے سائے ہیں
عبیدہ انجم
No comments:
Post a Comment