در بیانِ عافیت
از بلا تا رستہ گردی اے عزیز
اے عزیز مصیبت سے چھٹکارہ کی راہ
باز باید داشتن دست از دو چیز
دو چیزوں سے بے تعلق رہنا ہے
رو تو دست از نفس و دنیا بازدار
زندگی نفس اور دنیا سے الگ ہو کر گزار
تا بلا ہا را نباشد با تو کار
تا کہ تجھے مصیبتوں کا سامنا نہ ہو
گر بحرص و آز گردی مبتلا
اگر حرص و ہوس میں مبتلا ہو گا
با تو رو آرد ز ہر سو صد بلا
تو تجھ پر ہر طرف سے مصیبتوں کی یلغار ہو گی
آں کہ نبود ہیچ نقدش درمیاں
جس کی ہمیانی میں نقدی (روپیہ پیسہ) نہ ہو
ہر کُجا باشد بود اندر اماں
جہاں بھی ہو گا، محفوظ رہے گا
نفس و دنیا دا رہا کن اے پسر
اے لڑکے نفس و دنیا کا راستہ چھوڑ دے
تا رہی از ہر بلا و ہر خطر
تاکہ ہر مصیبت اور ہر خطرہ سے نجات مل جائے
اے بسا کس کز برائے نفسِ زار
بہت سے لوگ ذلیل و حقیر نفس کی خاطر
در بلا افتاد و گشت از غم نزار
مصیبت میں مبتلا ہوئے اور غم سے نڈھال ہو گئے
از برائے نفس مرغِ نا مراد
نفس کی خاطر نامراد پرند(انسان)
آمد و در دامِ صیاد او فتاد
آ کر شکاری کے جال میں پھنس گیا
تا دلت آرام یابد اے پسر
اے لڑکے تاکہ تیرا دل آرام پائے
بود و نا بودِ جہاں یکسر شمر
دنیا کے ہونے نہ ہونے کو برابر سمجھ
از عذابِ قہرِ حق ایمن مباش
عذابِ خداوندی سے بے خوف نہ ہو
درپئے آزار ہر مومن مباش
کسی مومن کی تکلیف کے درپے نہ ہو
در بلا یاری مخواہ از ہیچ کس
مصیبت میں کسی سے مدد طلب نہ کر
زاں کہ نبود جُز خُدا فریاد رس
اس لیے کہ اللہ کے علاوہ کوئی فریاد رس نہیں
ہر کرار نجاندۂ عذرش بخواہ
جس کو تجھ سے تکلیف پہنچی ہو اس سے معذرت کر لے
تا نباشد خصم تو در عرصہ گاہ
تاکہ قیامت کے میدان میں کوئی تیرا دشمن اور مخالف نہ ہو
گر غنا خواہد کسے از ذوالمِنن
اگر لوگوں کا احسان مند ہونے سے بچنا چاہے
در قناعت می توانش یافتن
تو جتنا میسر ہو اسی پر قناعت کر
فارسی کلام شیخ فریدالدین عطار
اردو ترجمہ؛ نشاط عثمانی
No comments:
Post a Comment