دل سلسلۂ شوق کی تشہیر بھی چاہے
زنجیر بھی آوازۂ زنجیر بھی چاہے
آرام کی صورت نظر آئے تو کچھ انساں
نیرنگ شب و روز میں تغیّر بھی چاہے
سودائے طلب کو نہ توکل کے عوض دے
یہ شرط تو خُود خالقِ تقدیر بھی چاہے
لازم ہے محبت ہی محبت کا بدل ہو
تصویر جو دیکھے اسے تصویر بھی چاہے
اک پل میں بدلتے ہیں خد و خال لہو کے
آنکھ اپنے کسی خواب کی تعبیر بھی چاہے
لہجہ تو بدل چُبھتی ہوئی بات سے پہلے
تیر ایسا تو کچھ ہو جسے نخچیر بھی چاہے
تاثیر سے خالی تو سخن ننگ ہے گوہر
شاعر کو عطا ہو سند میر بھی چاہے
گوہر ہوشیارپوری
No comments:
Post a Comment