میری سہیلی مِری آرزو
ماضی کے دریچوں میں منظر ہے جُداگانہ
ہاتھوں میں قلم، لب پہ فردا کا ہے افسانہ
اس دشت نوردی کا حاصل تھے یہی لمحے
یوں ادب سرائے میں اک دوست کا آ جانا
تجدید تعلّق بھی دو دن کا فسانہ ہے
مُدت میں کہیں مِلنا، مِلتے ہی بِچھڑ جانا
وہ تیری سخن فہمی، وہ انجمن آرائی
دل چِیر گیا، تیرا چُپ چاپ چلے جانا
شکوہ نہ شکایت ہے، کیا سادہ طبیعت ہے
تھا طور دلیرانہ،۔ انداز فقیرانہ
کس عجزِ تمنّا سے تم نے ہے روش بدلی
دل سے کہاں جاؤ گی تم آرزُو رُخسانہ
جاں لیوا ہی ہوتا ہے منظر غمِ ہستی کا
شب بھر کی کہانی ہے، شمع ہو کہ پروانہ
اب گہری اُداسی کے پھیلے ہوئے سائے ہیں
الہام سے روشن تھا یہ نُور کا کاشانہ
تھی تِشنگی شِدّت کی، پانی تھا امؔر کھارا
پھر کیوں نہ چھلک جاتا، یہ درد کا پیمانہ
عرفانہ امر
No comments:
Post a Comment