چھت کی بوسیدگی دیکھے کہ وہ بادل دیکھے
اپنی تقدیر کا مُفلس تو فقط بل دیکھے
وہ بھی بچے ہیں للک ان میں یقینا ہو گی
ہائے قسمت نہ کبھی اطلس و مخمل دیکھے
فن دیا اپنا، انگوٹھا بھی دیا شاہوں کو
ہم نے اس دنیا میں کچھ ایسے بھی پاگل دیکھے
گھر کے باہر نہ پیا مانگ کے پانی جس نے
اس کے ہاتھوں میں بھلا کیا کوئی بوتل دیکھے
پھیر لی آنکھ توجہ سے نہ دیکھا اس کو
پاؤں تقدیر نے جس شخص کے بوجھل دیکھے
ہم نے دنیا کے ہر اک گوشے میں پایا تجھ کو
گردشِ وقت ستم تیرے مسلسل دیکھے
آج بھی ایسے جیالے ہیں زمیں پر ساگر
دیکھا بازار کبھی اور نہ ہی ہوٹل دیکھے
ڈاکٹر وکرم ساگر
No comments:
Post a Comment