زباں بندی ہو تو اِظہار ہوں میں
جہاں پر ظُلم ہو، اِنکار ہوں میں
ضرورت میں چھپا اخبار ہوں میں
بہت سُوں کے لیے بیکار ہوں میں
بِنا مطلب نہیں مِلتا کسی سے
بلا کا ان دنوں عیّار ہوں میں
زمانے بھر میں رُسوا ہو رہا ہوں
مگر پِنہاں، پسِ دیوار ہوں میں
تِری سج دھج بھی مجھ پر منحصر ہے
تِری شہرت کا بھی معیار ہوں میں
چُھپا رکھا ہے دُنیا سے جو تم نے
وہ کہنے کو بھی اب تیار ہوں میں
مجھے کیسے گلے کوئی لگائے
رگِ گُل پر سجا اک خار ہوں میں
یہاں آ کر نہیں مُمکن ہے جانا
کہیں در ہوں کہیں دیوار ہوں میں
دکھائی دے رہا ہوں خُوش یقیناً
یقیناً اک بڑا فنکار ہوں میں
الاؤ نفرتوں کا بن گئے اب
سمجھ بیٹھا تھا جن کا پیار ہوں میں
چلن چلنے کا جس نے سیکھا مجھ سے
وہ اب کہتا ہے شے، بیکار ہوں میں
ضرورت ہو گئی پوری تِری، اب
لگا بولی، سرِ بازار ہوں میں
سہارے کون بڑھ کر اب مجھے میر
کہ اب گِرتی ہوئی دیوار ہوں میں
اشتیاق میر
No comments:
Post a Comment