آج تیری خبر جو آئے گی
دامنِ دل مِرا جلائے گی
پاس آئے گی اور منائے گی
چائے ہاتھوں سے وہ پِلائے گی
دُشمنوں کا ہے یہ کرم مجھ پر
دوستی اب مجھے ستائے گی
جب اکیلی اُداس ہو گی وہ
شعر میرا ہی گُنگنائے گی
بے وفائی تِری اے جانِ جاں
کیسے کیسے سِتم دِکھائے گی
اس سے کہہ دو کہ دیکھنا ہے اسے
زُلف چہرے سے کب ہٹائے گی
قُربتِ یار کی گھڑی احمد
بے قراری مِری مِٹائے گی
احمد حجازی
No comments:
Post a Comment