تنکا تنکا میں خوابوں کی محراب سے جمع کرتا رہا
بادِ انکار کا وہ تسلسل تھا سب کچھ بکھرتا رہا
اک سیہ پوش لمحے نے رنگوں بھری شام سے کیا کہا
رات بھر ماہِ روشن کا چہرہ اُترتا، نِکھرتا رہا
ہم وہ میوہ کہ جن سے کبھی ذائقوں نے بغاوت نہ کی
ہاں درختوں کی شاخوں سے، پتوں سے، موسم گُزرتا رہا
جب متاع و مویشی ہلاکت کے کُوچے میں بے یار تھے
باغِ دل تھا دعاؤں کی شبنم سے پُھولوں کو بھرتا رہا
جس نے تاروں کے بِستر سے میرے شبستاں کو جگمگ کیا
میں اسی چشم کے خواب جیتا رہا، خواب مرتا رہا
سید الطائفہ تھا تِرا عشق،۔ میرا جنوں فقر تھا
نعمتِ درد سے میرے سینے کا کشکول بھرتا رہا
امیر حمزہ ثاقب
No comments:
Post a Comment