Thursday, 25 January 2024

نکل کے دل سے بدن کی حدود میں بکھرا

 نکل کے دل سے بدن کی حدود میں بِکھرا

یہ کیسا درد ہے میرے وجود میں بکھرا

لہو لہو تھا وہ مقتل کی حد پھلانگ گیا

مگر میں مر کے بھی تیری حدود میں بکھرا

گنوا دیا تھا بہت کچھ انا بچاتے ہوئے

جو بچ گیا تھا وہ نام و نمود میں بکھرا

جو ایک کھیل سمجھتا تھا عشق کو پہلے

پھر اس کے بعد اُسی کھیل کُود میں بکھرا

یہ حُسنِ ماہ و کواکب، یہ رنگِ قوسِ قزح

تمہارا حُسن ہے چرخِ کبُود میں بکھرا

بڑی انیس تھی گُمنامیوں کی دُھند جلیل

مِرا یہ آئینہ شہرِ نمود میں بکھرا

یہ جان ویسے بھی اک دن جلیل جانی تھی

ہزار شکر میں تیرے سجُود میں بکھرا


احمد جلیل

No comments:

Post a Comment