عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عاصیوں کو در تمہارا مِل گیا
بے ٹھکانوں کو ٹھکانا مل گیا
فضلِ رب سے پھر کمی کس بات کی
مل گیا سب کچھ جو طیبہ مل گیا
کشفِ رازِ مَن رانی یوں ہُوا
تم ملے تو حق تعالیٰ مل گیا
بیخودی ہے باعثِ کشفِ حجاب
مل گیا ملنے کا رستہ مل گیا
ان کے در نے سب سے مستغنی کیا
بے طلب، بے خواہش اتنا مل گیا
نا خدائی کے لیے آئے حضورﷺ
ڈوبتو! نکلو سہارا مل گیا
دونوں عالم سے مجھے کیوں کھو دیا
نفسِ خُود مطلب! تجھے کیا مل گیا
خُلد کیسا، کیا چمن، کس کا وطن
مجھ کو صحرائے مدینہ مل گیا
آنکھیں پُر نم ہو گئیں، سر جُھک گیا
جب تِراؐ نقشِ کفِ پا مل گیا
ہے محبت کس قدر نامِ خُدا
نامِ حق سے نامِ والا مل گیا
ان کے طالب نے جو چاہا پا لیا
ان کے سائل نے جو مانگا مل گیا
تیرے در کے ٹُکڑے اور میں غریب
مجھ کو روزی کا ٹھکانا مل گیا
اے حسن! فردوس میں جائیں جناب
ہم کو صحرائے مدینہ مل گیا
ملا محمد حسن براہوی
No comments:
Post a Comment