سوال و جواب
سوال
میں نے پوچھا زندگی سے تُو کیوں اس قدر کٹھن ہے
کہ جس میں ہیں ہر سُو کانٹے کیوں ایسا اک چمن ہے
کہ جو آگ سب جلا دے، وہی تیرا پیرہن ہے
مگر پھر بھی سب کو پیاری تجھے چاہے دُنیا ساری
جس سے بچ سکا نہ کوئی تیری ضرب ایسی کاری
اور بے وفا ہے یہ ایسی کہ ہے موت تجھ پہ بھاری
آج اس کی گر اجل ہے، تو کل ہے اس کی باری
جسے تُو نے آزمایا، نہ کہیں ٹھکانہ پایا
تُو نے اس قدر ستایا، ہُوا دُور اس سے سایا
وہ قدم قدم مصیبت، کہ سکوں کہیں نہ پایا
زندگی کا جواب
کہا زندگی نے ہنس کر
تجھے کیا خبر اے ناداں کہ کیا ہے میری فطرت
میں اسی کے لیے مُشکل مجھے چاہا جس نے بے حد
وہی سب کے خُدا نے مجھے امتحاں بنایا
کیا بتاؤں میں تجھ کو میرا راز کس نے پایا
سب اپنے غم بُھلا کر اوروں کا دُکھ بٹایا
خلقِ خُدا کی خاطر جو کچھ تھا سب گنوایا
میں تلخ اک حقیقت، میں خُواب اک سُہانا
پُھولوں کا نرم بستر، کانٹوں کا آشیانہ
اک بات بہت اہم ہے اس کو نہ بُھول جانا
نہ زر کبھی ہے جیتا، نے زورِ ظالمانہ
جو دلوں کو فتح کر لے، وہی فاتحِ زمانہ
ہاں اس نے مجھ کو سمجھا جس نے یہ راز جانا
"ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا"
معاذ صدیقی
No comments:
Post a Comment