Saturday, 27 January 2024

خود سے بچنے کا بہانہ نہ رہا

 خُود سے بچنے کا بہانہ نہ رہا

سبز پتّوں کا زمانہ نہ رہا

میں اذیّت کا پتہ لے کے چلی

اور پِھر اپنا ٹِھکانہ نہ رہا

ہائے ہِجرت کی نئی مجبوری

یاد ساتھی وہ پرانا نہ رہا

دوستا! سب ہی مخالف نِکلے

جانیا! بھائی کا شانہ نہ رہا

ماں کے قدموں تلے جنت ہو گی

یاد بچوں کو بتانا نہ رہا

دُھندلائی سِی سُنہری آنکھیں

تٙر ہُوئیں ایسے کہ جانا نہ رہا

کچھ تو فُرصت نہ مِلی مجھ کو بھى

اور کچھ آپ کا آنا نہ رہا


رابعہ بصری

No comments:

Post a Comment