جو کچھ بھی کیا ہے قسمت نے، کاش اس کے مخالف ہو جاتا
ہم بے شک اُس کے نہ ہوتے، وہ شخص ہمارا ہو جاتا
جو قسمت مہربان ہوتی، جو ساتھ تمہارا لِکھ دیتی
روشن و تابندہ ہمارے بھی بخت کا ستارہ ہو جاتا
اس جیون کی وُقعت کیا ہے، پل بھر میں ہار دیتے تم پر
گر پیار سے اک بار ذرا جو تیرا اشارہ ہو جاتا
اک پل کے لیے آ کھڑے ہوتے گر تم ساحل پہ
تو ڈُوبنے والوں کو ذرا تنکے کا سہارہ ہو جاتا
جو ساتھ تمہارا مِل جاتا، در پیش نہ کوئی مُشکل آتی
پر تم ہی نہیں تو کہو کیسے، پھر میرا گُزارا ہو جاتا
غلطی ہوئی خرم سے فقط اتنی کہ تم کو پُکارا بیچ بھنور
خُدا کو جو پُکارا ہوتا تو سامنے کِنارہ ہو جاتا
خرم شہزاد
No comments:
Post a Comment